آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں برائیوں اور گناہوں کی انتہا ہو چکی ہے جہالت کی انتہا یہ ہے کہ ہم ان گناہوں کو گناہ بھی نہیں سمجھتے آج کل چغلی ،جھوٹ ، منافقت اور غیبت جیسے گناہ ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ جب کہ ہم ان کو غلط تک نہیں سمجھتے یہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہی ہے۔ ورنہ سچا مسلمان تو ہر گناه و برائی سے دور رہتا ہے اسے صرف اپنے اللہ کو راضی کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ اس کا ہر عمل اللہ کے احکام کے مطابق ہوتا ہے ان سب گناہوں کے علاوہ اک ایسا گناہ بھی ہے جو بہت سی برائیوں کا باعث ہے۔ دنیا پر بے شمار گناہ ہیں مگر یہ ایسا گناہ ہے جو ہماری نیکیوں اور اچھائیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ یہ اس دنیا میں ہونے والا سب سے پہلا گناہ تکبر ہے جی ہاں تکبر کی وجہ سے ہی شیطان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلت کا مقام حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں تکبر عام ہے کسی کو اپنی دولت کی وجہ سے تکبر ہے وہ غریب لوگوں کو کچھ نہیں سمجھتا کوئی دولت کے نشے اور غرور میں آکر ایسے ایسے گناہ کرتے ہیں جو انسان کو جہنم تک لے جاتے ہیں۔
یہی وجہ کہ نبی پاک نے ارشاد فرمایا
” میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اہل جنت میں زیادہ تعداد غریبوں کی نظر آئی “
تکبر صرف روپے پیسے اور دولت کا ہی نہیں ہوتا۔ کسی کو حسن پر تکبر ہے تو کسی کو علم پر تو کسی کو اپنی عبادات کی بنا پر تکبر ہے۔
اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ علم سیکھ کر اخلاق و آداب کے ساتھ دوسروں کو سکھایا جائے۔ جب کہ آج کے اس معاشرے میں لوگ تکبر کرنے لگ جاتے ہیں کی میرے پاس تو بہت علم ہے۔ لوگوں کو تو کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ جس انسان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا تکبر انسان کے سارے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔ شیطان کا مقام اللہ کی بارگاہ میں ہم سب جانتے ہیں جبکہ اس کا گناہ بھی تکبر ہی تھا اسکا تکبر اس بنا پر تھا کہ وہ انسان سے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا جبکہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا تکبر تو ایسا گناہ ہے جس نے بہت سے نیک و پاکباز انسانوں کی ساری نیکیاں اور عبادات کو ضائع کر کے جہنم کو ان کا مقدر بنا دیا۔
ای پرانا قصہ یاد آرہا ۔ بنی اسرائیل کا واقع ہے کہ ایک جگہ ایک انتہائی پاکباز اور پرہیزگار انسان رہتا تھا وہ جب بھی باہر نکلتا تو ایک بادل کا ٹکڑا اس پر سایہ کئے ہوئے رہتا۔ اسی علاقے میں ایک گناہگار شخص بھی رہتا تھا اس نے اپنی زندگی میں بہت گناہ کئے تھے۔ ایک دن وہ نیک آدمی کسی جگہ بیٹھا تھا تو اس گناہگار شخص کی نظر اس پر پڑی اس کے دل میں خوف خدا پیدا ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں بھی کچھ دیر اس نیک آدمی کے ساتھ اس بادل کے نیچے بیٹھ جاؤں تو شاید اللہ تعالی مجھ پر بھی کرم کر دے اور میرے گناہ معاف فرما دے یہ سوچ کر وہ شخص اس نیک آدمی کے ساتھ جا کر اس بادل کے سائے میں بیٹھ گیا۔
جب وہ گناہگار شخص اس نیک آدمی کے ساتھ جا کر بیٹھا تو نیک آدمی کو اس شخص کے گناہگار ہونے کا علم تھا جس وجہ سے اس کے دل میں خیال آیا کہ کہاں میں اور کہاں یہ گناہوں میں ڈوبا ہوا شخص اس کے دل میں اپنی پرہیزگاری کا تکبر آگیا۔ تو اس شخص سے اس نے کہا کے جاؤ کہیں اور جا کر بیٹھو اس کا صرف یہ کہنا تھا کہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جب وہ گناہگار شخص اُٹھ کر وہاں سے روانہ ہوا تو بادل کا ٹکڑا اس پر سایہ کئے ہوئے اس کے اوپر چلنے لگا۔ اس وقت سے ان کے اعمال دوبارہ سے شروع ہو گئے اس نیک انسان کے تکبر نے اسکی ساری عبادات ضائع کردی جبکہ گناہگار شخص کی ندامت پر اس کے سارے گناہ معاف کر دئے گئے۔

یہ ہیں تکبر کے نقصانات کہ جو ایک چٹکی میں سارے اعمال ضائع کر دیتا ہے ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم ایمان میں کس مقام پر ہیں ہماری تو زندگیاں تکبر سے بھری پڑی ہیں۔ اس دنیا میں ہونے والا سب سے پہلا گناہ تکبر ہی تھا باقی سارے گناہ اسی کا نتیجہ ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں تکبر سے پرہیز کرکے اپنی زندگی اسلام کے مطابق سادگی سے گزارنے اور اچھے اخلاق اپنانے کا حکم دیا دین اسلام میں سادگی اور اعلیٰ اخلاق کی بہت اہمیت ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں
کوشش کریں کہ اپنی زندگی اللہ تعالی کے احکام کے مطابق سادگی اور عاجزی سے تسر کریں۔اپنے دل کو تکبر سے پاک رکھ کر اللہ تعالی کے خوف سے اس کو لبریز رکھیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
خام خیال
از قلم : محمد اشتیاق رزاق