با ادب با مراد بے ادب بے مراد

اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس میں ہر چیز کو ایک منفرد اور مناسب مقام حاصل ہے۔ علم و فن کے ساتھ ساتھ ادب و احترام کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے علم و فن تو بہت سے لوگوں کے پاس ہوتا ہے مگر ادب و احترام بر انسان کے پاس نہیں ہوتا۔ جبکہ ادب ایک ایسا خزانہ ہے جس کے بغیر علم و فن کی کوئی قیمت و اہمیت نہیں اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر پہلو کے آداب کی تعلیم دی ہے جیسا کے آداب محفل کھانے کے آداب ، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے آداب حتی کے ہماری زندگی کا کوئی پہلو بھی ادب کی تعلیمات سے خالی نہیں ہے ان سب آداب کے ساتھ ساتھ بڑوں ، بزرگوں ، اساتذہ اور علماء و سادات کے ادب پر خاص زور دیا گیا ہے کیونکہ یہی وہ ذرائع ہیں جن سے انسان اپنی زندگی میں راہنمائی حاصل کرتا ہے تو ان کی صحبت ، علم و عمل اور ان کی نصیحت و گفتگو سے انسان تب ہی نافع طور پر مستفید ہو سکتا ہے جب وہ ان کے مقام و آداب سے واقف ہو گا۔ ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے انسان دوسروں سے اختلاف بھی کر سکتا ہے مگر اختلاف کے لئے بھی آداب و اخلاق کا ہونا لازم ہے۔ کیونکہ ادب و اخلاق کے بغیر سچ کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی سچ کے اثرات کے لئے بھی ادب و اخلاق ہی کا ہونا ضروری ہے۔

نرم خوئی اور حسن اخلاق کے بغیر سچائی کا کوئی مول نہیں بلکہ ان کے بغیر سچائی باعثِ فتنہ ہو سکتی ہے

بقول مولانا رومی :

ادب روح کا عطر ہے، جو ہر سانس کے ساتھ معطر کرتا ہے۔

علامہ اقبال کے بارے میں فرماتے ہیں :

“ادب وہ ہے جو انسان کو اپنی حقیقت سے روشناس کرائے اور اسے بلند تر خیالات کی طرف لے جائے۔

بہت سے انبیاء کرام ، صوفیاء و بزرگوں نے بھی اپنوں اور غیروں میں بہت سے لوگوں سے اختلاف کیا مگر ادب کی حدود کا احترام قائم رکھا کیونکہ وہ ادب کا مقام جانتے تھے۔ وہ انسان جس کے پاس بہت علم ہو اور اگر ادب نہ ہو تو وہ فتنہ کا باعث بن سکتا ہے۔ ادب کا یہ مقام ہے کہ علم کو سنبھالنے پھیلانے اور عام کرنے میں ادب و احترام کی شمولیت لازمی جز ہے۔ جو انسان ادب سے محروم ہوتا ہے وہ بہت سے رشتوں کو اہمیت نہیں دے سكتا وہ انسان جس میں ادب نہ ہو وہ انسان تا دیر اپنا وقار قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ انسان جو ادب کی حدود سے ناواقف ہو وہ لوگوں کے دلوں میں کبھی بھی گھر نہیں کر سکتا۔ بے ادب انسان آہستہ آہستہ اپنے مخلص رشتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ وہ انسان جو ادب کو اپنے اخلاق میں شامل کر لے وہ اپنے رویے ، گفتگو اور احسن اخلاق کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے اور ان کے دل میں عزت و وقار کی مسند پا لیتا ہے۔

سوز و سازِ زندگی ادب سے ہے
یہ وہ شرار ہے جو دل کی دھڑکن سے ہے

          ( علامہ اقبال )

خام خیال
محمد اشتیاق آسّی

Leave a Comment